پروین رحمٰن قتل کیس کی تحقیقات کیلئے نئی جے آئی ٹی تشکیل

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پروین رحمٰن قتل کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے اس کیس کی تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے۔

جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے معروف سماجی رضاکار اور اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی مقتول ڈائریکٹر پروین رحمٰن کے قتل کیس کی سماعت کی۔

سماعت میں عدالت کو نئی جے آئی ٹی سے آگاہ کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نوٹیفکیشن بھی پیش کیا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نوتشکیل شدہ جے آئی ٹی 5 اراکین پر مشتمل ہے جو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے ڈائریکٹر مظہرالحق کاکا خیل کی سربراہی میں کام کرے گی۔

انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے اراکین کو موصول ہونے والی دھمکی آمیز کال کو ٹریس کیا جارہا ہے، جس پر ایف آئی اے کی رپورٹ مل چکی ہے جبکہ دیگر اداروں کی رپورٹ کا انتظار ہے۔

جس پر جسٹس عظمت سعید کھوسہ نے ہدایت کی کہ اس سلسلے میں دیگر اداروں کی رپورٹ موصول ہونے کا انتظار کیا جائے۔

انہوں نے تنبیہہ کرتے ہوئے کہ عدالت نو تشکیل شدہ جے آئی ٹی کی کارکردگی کا جائزہ لے گی، سماعت 3 ہفتوں تک کے لیے ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت میں پروین رحمٰن کی ہمشیرہ عقیلہ اسمٰعیل نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ انہیں اور پروجیکٹ کے موجودہ سربراہ انور راشد کو دھمکی آمیز کالز کی جارہی ہیں۔

جس پر سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو پروین رحمٰن کے اہلِ خانہ اور موجود ڈائریکٹر انور راشد کو دھمکیاں دینے والے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔

پروین رحمٰن قتل کیس کا پس منظر
اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی بانی پروین رحمن 13 مارچ 2013 کو اپنے آفس سے گھر جارہی تھیں کہ موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم افراد نے منگھوپیر روڈ پر بنارس پل کے پاس ان پر فائرنگ کردی تھی، جس کے نتیجے میں ان کی گردن پر گولیاں لگی تھیں۔

پروین رحمٰن کے ڈرائیور نے فوری طور پر انہیں عباسی شہید ہسپتال منتقل کیا تھا تاہم اس حملے میں وہ جانبر نہ ہوسکی تھیں۔

بعدِ ازاں مارچ 2015 میں کراچی اور مانسہرہ پولیس نے مانسہرہ کے علاقے کشمیر بازار میں مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے پروین رحمٰن کے قتل میں ملوث ملزم پپو کشمیری کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

یاد رہے کہ 7 مئی 2017 کو کراچی پولیس نے منگھوپیر تھانے کی حدود سلطان آباد میں کارروائی کرتے ہوئے اس قتل کے مبینہ قاتل اور کیس کے مرکزی ملزم رحیم سواتی کو بھی گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

رواں برس کے آغاز میں سپریم کورٹ نے پروین رحمٰن قتل کیس میں عدالتی کمیشن کی تشکیل کے لیے اس وقت کے اٹارنی جنرل اوشتر اوصاف کو نوٹس جاری کیا تھا۔

جس کے بعد 22 مارچ کو سندھ پولیس پر مشتمل جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کے سامنے تسلیم کیا تھا کہ پروین رحمٰن کے قتل کی سازش میں لینڈ مافیا ملوث تھی کیونکہ وہ گوٹھ آباد اسکیم پر کام کررہی تھیں۔

ڈپٹی انسپکٹر جنرل ویسٹ زون عامر فاروقی نے جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے سامنے رپورٹ پیش کی تھی, جس میں کہا گیا تھا کہ ’پروین رحمٰن کے قتل میں تحریکِ طالبان کے سنیئر کمانڈر قاری بلال کو مرکزی ملزم قرار نہیں دیا جاسکتا‘۔

واضح رہے کہ پروین رحمٰن کے قتل کے اگلے ہی روز 14 مارچ 2013 کو قاری بلال کو مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

بعد ازاں 29 مارچ کو 2013 انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کیس میں نامزد پانچ ملزمان ایاز شمزئی عرف سواتی ، محمد امجد حسین خان، احمد خان عرف پپو کشمیری ، محمد عمران سواتی اور محمدرحیم سواتی پر فردِ جرم عائد کردی تھی۔

کیس میں نامزد ملزمان نے اقرارِ جرم نہیں کیا تھا اور اپنے خلاف الزامات کا دفاع کرنے کا اختیار چُنا، جس کے بعد ٹرائل کورٹ نے پروسیکیوشن گواہان کو بیانات قلمبند کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔

تاہم 28 جون کو یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ کیس میں ٹرائل کا آغاز نہیں ہوسکا تھا کیونکہ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود پولیس گواہان کو سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔