اسپیس ایکس

اسپیس ایکس کیپسول کی واپسی، امریکا سے انسانی خلائی پروازوں کی راہ ہموار

واشنگٹن: اسپیس ایکس کا کریو ڈریگن کیپسول، امریکی خلائی ادارے نیشنل آسٹرونوٹ اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) کا تجرباتی مشن کامیابی سے مکمل کرکے بحرِ اوقیانوس میں اتر گیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اس کی واپسی سے امریکا میں انسانی خلائی پروازوں کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔

کئی گھنٹوں کے تجسس کے بعد کریو ڈریگن نے امریکی ریاست فلوریڈا کے ساحل سے 370 کلومیٹر دور صبح 8 بج کر 45 منٹ پر سطح سمندر کو چھوا۔

کیپسول اپنے سواروں کو تجرباتی طور پر زمین پر اسی طرح واپس لایا جس طرح امریکی خلاباز 1960 سے 1970 کے درمیان اپالو دور میں سیارے پر واپس آئے تھے، اس وقت تک 1981 سے 2011 تک جاری رہنے والے اسپیس شٹل پروگرام کا آغاز نہیں ہوا تھا۔

ناسا کی فوٹیج میں کیپسول کو بڑے آرام سے سمندر میں اترتے ہوئے دیکھا گیا جس میں پہلے اس نے آرام سے چاروں پیرا شوٹ کھول کر اپنی رفتار کم کی جنہوں نے پانی میں اترتے ساتھ ہی کیپسول سے لپٹ کر کشتی کی شکل اختیار کرلی۔

اس حوالے سے ناسا کے ایک منتظم جم برائیڈینسٹائن نے کیپسول کے اترنے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے انسانی خلائی پروازوں میں نیا سنگِ میل عبور کرلیا‘۔

گزشتہ ہفتے فلوریڈا کے کینیڈی اسپیس سینٹر سے خلا میں بھیجے جانے والا ڈریگن اگلے ہی دن انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن پہنچ کر منسلک ہوگیا تھا اور وہاں 5 دن تک منسلک رہنے کے بعد واپس روانہ ہوا۔

سی این بی سی کی رپورٹ کے مطابق اسپیس ایکس کیپسول نے انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن پر موجود 3 افراد کو تقریباٍ 400 پاؤنڈ وزنی اشیا بھی پہنچائی، جس میں آلات و خوراک وغیرہ شامل تھی۔

ناسا کے مطابق ڈریگن کے سواروں میں مصنوعی انسان سوار تھے جس کے بعد اب 2 امریکی خلا باز رواں سال کے آخر میں انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن جا کر واپس آئیں گے۔

دوسری جانب بوئینگ نے بھی 8 سال کے وقفے کے بعد امریکی سرزمین سے انسانی خلائی پروازوں کے منصوبے پر کام بحال کردیا۔