اسلام آباد (لاہور نامہ)وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ پی ڈی ایم ایک مختلف الاخیال لوگوں کا منفی اتحاد ہے جس کا مقصد موجودہ حکومت کو زق پہنچانا ہے.
اور اداروں پر دباؤ ڈال کر اپنے کرپشن کے کیسز سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے لہذا یہ بہت جلد منتشر ہو جائیں گے ،لانگ مارچ پر بھی اتفاق نہیں ، جب 31 جنوری کی ڈیڈ لائن ختم ہو گی تو یہ مل بیٹھیں گے ، پھر فیصلہ کریں گے.
صاف ظاہر ہے ان کی صفوں میں اتحاد نہیں ، بھارت پاکستان میں دہشتگردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے،ہم بھارت کے عزائم کو بے نقاب کرتے رہیں گے۔
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے بین الاقوامی ،اہم علاقائی امور اور ملکی سیاسی صورتحال کے حوالے سے اپنے بیان میں کہاکہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ بھارت اس خطے کے امن کو تہہ و بالا کرنے کی مسلسل کوششوں میں مصروف ہے۔ انہوںنے کہاکہ بھارت پاکستان میں دہشتگردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے.
وہ افغان امن عمل میں ایک سپائیلر(Spoiler) کا کردار ادا کر رہا ہے وہ نہیں چاہتا کہ افغانستان میں امن و استحکام ہو ۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان ہر سفارتی محاذ پر بھارت کا مقابلہ کر رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ بھارت واویلا کر رہا ہے کہ اسے سلامتی کونسل کے غیر مستقل ممبر ہونے کے ناطے بڑی کامیابی ملی ہے ،اسے تین کمیٹیوں کی صدارت کا موقع ملے گا ۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان بھی سلامتی کونسل کا غیر مستقل ممبر رہا ہے اور اس حوالے سے پاکستان کو بھی اہم ذمہ داریاں ملیں ۔ انہوں نے کہاکہ سلامتی کونسل میں تیس کے قریب کمیٹیاں اور ذیلی کمیٹیاں ہوتی ہیں اور غیر مستقل ممبر ہونے کے ناطے بھارت کو ذمہ داریاں ملنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کی خواہش کیا تھی؟
انہوں نے کہاکہ بھارت کی خواہش تھی کہ اسے 1267 کی قدغن لگانے والی اہم کمیٹی کا ممبر بنا دیا جائے لیکن اسے ناکامی ہوئی ،بھارت کی خواہش تھی کہ نیوکلیائی ہتھیاروں کی روک تھام کی کمیٹی کی صدارت اسے مل جائے جو اسے نہیں ملی۔
انہوں نے کہاکہ بھارت چاہتا تھا کہ افغانستان کے حوالے سے کمیٹی میں شامل ہو جائے کیونکہ اسے افغانستان کے معاملات سے الگ تھلگ رکھا گیا جو اس کی خواہش پوری نہیں ہوسکی ۔انہوںنے کہاکہ ہم نے بھارت کی جانب سے دہشتگردوں کی پشت پناہی کے ناقابل تردید ثبوت پی 5 سمیت سب کے سامنے رکھے ہیں ،دنیا، سنتی سب کی ہے لیکن حقائق کو جانتی ہے اور سمجھتی ہے ۔
انہوں نے کہاکہ پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن صاحب کے دو بڑے اعلانات تھے ایک اسمبلیوں سے مستعفی ہونا اور دوسرا لانگ مارچ ،جہاں تک استعفوں کا معاملہ ہے اس پر تو پیپلز پارٹی پہلے اور اب نون لیگ بھی پیچھے ہٹ گئی ہے .
جبکہ لانگ مارچ پر بھی ان کا اتفاق نہیں ہے جب 31 جنوری کی ڈیڈ لائن ختم ہو گی تو یہ مل بیٹھیں گے اور پھر فیصلہ کریں گے ،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی صفوں میں اتحاد نہیں ہے۔