(لاہورنامہ) قومی اور صوبائی اسمبلیاں پاکستان کے مقتدر ادارے ہیں اور ان میں بیٹھے ہمارے خیرخواہ ہمہ وقت تبدیلی لانے کے لیے سرگرم عمل ہیں گرد و پیش میں چلنے والی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ادارے ہمہ وقت قانون سازی میں مصروف ہیں، چائلڈ لیبر پر شور بلند ہوا تو قانون بنا دیا، میڈیا نے کچھ خامیوں کی نشاندہی کی تو اس کے پر کاٹ کر ہاتھ میں دے دیئے، ماحولیاتی آلودگی پر تو کبھی حقوق نسواں پر، کبھی مذہبی ہم آہنگی پر گو کبھی حقوق پر قانون، ان میں جو بات سب سے زیادہ زیر بحث رہتی ہے وہ ہے اقلیتوں کے حقوق۔
اقلیتوں کے حقوق پر ایک کارکن سے لے کر ایوانِ صدراور ایوان وزیر اعظم تک متحرک نظر آتے ہیں کوئی بات ہو جائے تو پریس کانفرنس، ٹویٹر، میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اقلیتوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی باتیں ہونے لگتی ہیں۔ اسی طرح کوٹہ کے حوالے سے بھی بھرپور تسلیاں دی جاتی۔
جب قومی دھارے میں شامل کر کے آگے بڑھنے کی بات کی جاتی ہے تو اس سے یہ تو ثابت ہو جاتا ہے کہ مملکت خدادادِ پاکستان میں اقلیتوں سے امتیاز برتا جاتا ہے اور یہ اقلیتیں مقدس امانت سے زیادہ مقدس گائے بنا کر رکھ دی گئی ہیں۔
23 مارچ 1956ء کے آئین سے لے کر 14 اگست 1973ء کے آئین تک ہر سال اقلیتوں کے حقوق و آزادی کی جو ضمانت دی گئی ہے وہ 11 اگست کو بجلی کے کھمبوں یا چاروں صوبوں کے دارالحکومتوں کی اہم شاہرہوں پر لگے بینروں تک محدود ہے۔
1947ء کی آئین سز اسمبلی کے اہم رکن مولانا شبیر احمد عثمانی نے 1949ء کو سردار عبدالرب نشتر، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے ساتھ مل کر اقتدار اعلی، جمہوریت، وفاقی نظام، بنیادی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق سے متعلق قرار دادِ مقاصد مرتب کی جسے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی تحریک پر 12 مارچ 1949ء کو آئین ساز اسمبلی نے منظور کر لیا۔
1951ء کو کراچی میں تمام مکاتب فکر کے ممتاز علمائے کرام کا کنونشن ہوا جس میں آئین سازی کے لیے 22 نکات پر تمام علمائے کرام نے مشترکہ طور پر منظور دی ان 22 نکات میں سے آرٹیکل 7-6 بلا امتیازِ مذہب و نسل بنیادی ضروریات کی ضمانت دیتا ہے۔ آرٹیکل 10 غیر مسلم اقلیتوں کو مذہب، تعلیم، روزگار اور رسم و رواج کی آزادی دیتا ہے، لیکن جب تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اقلیتوں کو روزگار کے نام پر درجہ چہارم یا درجہ دوم کی نوکریوں کے سوا کچھ نہیں دیا گیا۔ آزادی کی بجائے اقلیتوں کو مقدس امانت کے طور پر پکارا جاتا ہے بلکہ اب تو اقلیتوں کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اسی لیے مذہبی اقلیتیں اپنی ماوں بہنوں، بیٹیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مذہبی ہم آہنگی جیسی پارٹیوں میں جانےسے روکتی ہیں تاکہ کوئی بھی شخص ان کی نو عمر بچیوں کے ایمان کو راتوں رات تبدیل نہ کر دے۔
حالیہ چند سالوں میں جس طرح پنجاب اور خصوصاً سندھ میں جبری تبدیلی مذہب کی جو لہر چلی ہے وہ نہ صرف ریاست کے لیے بڑا چیلنج ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بھی بڑے امتحان کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ پنجاب اور سندھ میں نابالغ بچیوں کی شادیوں کے حوالے سے قانون کی موجودگی کے باجود بھی پولیس ہندو اور مسیحی بچیوں کے معاملے میں نہ صرف ملزمان کا ساتھ دیتی ہے بلکہ تمام قانونی پیچیدگیوں میں سہولت کاری کا فریضہ بھی سرانجام دیتی ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی نو عمر مسلم بچی اپنی مرضی سے گھر سے بھاگ کر شادی کر لے تو نہ صرف ریاست بیدار ہو جاتی ہے بلکہ عدلیہ بھی قانون و انصاف کی بالادستی کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے۔
ایک معروف انگریزی اخبار کی 2016 کی رپورٹ کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے جج کے کے آغا نے نومبر 2016ء میں خانیوالی کی 17 سالہ اقصیٰ طارق کو یہ کہہ کر دارالامان بھیج دیا کہ سندھ چائلڈ میرج ایکٹ کے تحت 18 سال سے کم عمر بچی کی شادی غیر قانونی ہے۔
اسی طرح ایک دوسرے انگریزی اخبار کی 12 نومبر 2017ء کی رپورٹ کے مطابق ایس ایچ او قائد آباد نے وارڈ نمبر 7 سے ایک 10 سالہ بچی کو اس وقت چھاپہ مار کراپنی حفاظتی تحویل میں لے لیا جب اس کی شادی 40 سالہ شخص سے ہو رہی تھی،اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ لڑکی کے والد کے خلاف سندھ چائلڈ میرج ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کے بعد گرفتاری کے لیے پہنچی، دوسرے کسی کیس میں پولیس کی ایسی فرض شناسی کی مثالیں آپ کو کم کم ہی ملتی ہیں۔ سماجی رابطےکی ویب سائٹ کی 28 جنوری کی رپورٹ کے مطابق سندھ کے علاقے کوٹ دانیال تھانہ خیر پور کی پولیس نے 13 سالہ دلہن اور 14 سالہ دلہا سمیت 20 افراد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف سندھ میرج ایکٹ کے تحت رپورٹ درج کی جس پر ایس ایس پی سعد مگسی نے پیرگوٹھ میں کم عمر شادی کے قانون کی خلاف ورزی پر نوٹس لیا۔
21جون 2021ء کو سماجی رابطہ کی ویب سائٹ کے رپورٹر رانا شاکر نے 11 سالہ دلہن اور 35 سالہ دلہا کو گرفتار کر کے 7 لوگوں کے خلاف پنجاب میرج ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کرائی۔
سندھ میرج ایکٹ کے سیکشن 3 کے مطابق کم عمر بچیوں کی شادیوں پر پابندی عائد ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ 18 سال سے زائد شخص اگر نابالغ بچوں کی شادی کا معاہدہ کرے گا تو اسے دو یا تین سال سخت قید کی سزا ہوگی۔ سیکشن 2 کے مطابق قانون میں غفلت برتنے اور کم عمر شادی کو سنجیدگی سے نہ روکنے والا شخص غفلت کا مرتکب ہوگا۔
ان قوانین کی موجودگی میں پنجاب اور سندھ میں ہندو اور مسیحی کم عمر بچکیوں کی جبری شادیوں کا سلسلہ تسلسل سے جاری ہے جس پر ریاست اقلیتی بچیوں کے معاملات میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ گزشتہ ماہ ستمبر میں نیشنل کمیشن برائے اقلیت نے صدر پاکستان عزت مآب عارف علوی سے ایوان صدر میں چیئرمین چیلا رام کی قیادت میں ملاقات کی اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا، ملاقات کے بعد میڈیا ٹاک میں چیلا رام نے واضح طور پر ریاست کی جانب سے مجرمانہ غفلت برتنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا۔ ستمبر 2021 کو ہی اسلامی نظریاتی کونسل کا اہم اجلاس چیئرمین قبلہ ایاز کی سربراہی میں ہوا جس میں غیر مسلم بچیوں کی جبری تبدیلی مذہب اور کم عمر شادی کے موضوع پر بات چیت ہوئی اس اہم اجلاس میں سندھ کے میاں مٹھو کو خاص طور سے مدعو کر کے اسلامی نظریاتی کونسل سے یہ پیغام دیا گیا کہ اقلیتی صرف شہری نمبر 2 ہیں تمام قوانین کی پاسداری صرف نو عمر مسلم بچیوں کے لیے ہے اور اجلاس نے متفقہ طور سے وزارتِ مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کی جبری تبدیلی مذہب اور شادی کی سفارشات کو مسترد کر دیا جس کو بعد ازاں وزارت مذہبی امور کے وزیر نورالحق قادری نے من و عن قبول کیا۔
یہاں ایک سنجیدہ سوال یہ ہے کہ ریاست جو ماں کا کردار ادا کرتی ہے وہ اپنے بچوں سے منہ موڑ کر ان کو غیر ہونے کا پیغام کیوں دے رہی ہے؟ کیا یہ سمجھا جائے کہ ریاست اقلیتوں کے نام پر بیرون ممالک معاہدوں اور فنڈوں تک محدود ہے جس کے لیے ہر پارٹی نے اقلیتوں کے زر خرید غلام رکھے ہوئے ہیں جو ہر دور میں اقلیتوں کی نمائندگی کے خول میں اپنی حکومت کے فائدے کی بات کرتے ہیں چاہے وہ نیشنل کمیشن برائے اطفال ہو یا عورتوں کے حقوق پر کام کرنے والی قومی کمیشن وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی ہو یا انسانی حقوق کی وزارت ان سب کے نزدیک اقلیتیں شہری نمبر 2 ہیں۔