لاہور( لاہورنامہ)وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ اگر تحریک انصاف انتخابات جلد کرانے میں واقعی سنجیدہ ہے تو پنجاب اور خیبر پختوانخواہ کے وزرائے اعلیٰ گورنرز کو اسمبلیاں توڑنے کی ایڈوائس بھجوائیں ہم خوش آمدید کہیں گے .
دھمکیوں سے ہتھکنڈوں سے پاکستان کا آئین اور قانون موڑا نہیں جا سکتا وہ اپنا راستہ اختیار کرے گا، قانون ہاتھ میں لینے کی کوشس کی توقانون بھی آپ کو گرفت اور ہاتھ میں لے گا،پی ٹی آئی میں جو لوگ شعور رکھتے ہیں جن میں سوچ سمجھ کی گنجائش ہے کیا آپ نے عمران خان اورپی ٹی آئی کا ساتھ انصاف کی بالا دستی کے لئے دیا تھا یا کسی ایک شخص کی شخصی حکمرانی کے لئے دیا تھا، نئے پاکستان کا نعرہ دے کر ایک شخص نے دھوکہ نہیں کیا ؟
عمران خان ان چند لوگوں کی ریڈلائن ہیں جو ان کے شخصی سحر میں مبتلا ہیں ،بائیس کروڑ عوام کی بھی ریڈ لائن ہے ، بائیس کروڑ عوام کی ریڈ لائن میںپاکستان کے آئین کی بالا دستی پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ممبران کی جانب سے عمران خان نیازی کے خلاف اتفاق رائے سے فیصلہ آیا کہ وہ کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہیں قومی اسمبلی کی رکنیت کیلئے پاکستان کے آئین کے مطابق نا اہل قرار دیا جا چکا ہے ۔
پی ٹی آئی کی قیادت اس کے اوپر جس طریقے سے احتجاج کر رہی ہے وہ اس نظریے کی نفی ہے جس کی ترویج اور پرچار عمران خان چلا چلا کرتے تھے۔ عمران خان ہمیشہ قوم کو احادیث سنا سنا کر یہ درس دیتے تھے کہ حضرت محمد ۖ نے فرمایا کہ تم سے پہلے کی قومین اس لئے تباہ ہوئیں کیونکہ وہ بڑوں کے لئے اور قانون اور چھوٹوں کے لئے اورقانون رکھتی تھیں ، یہ حدیث بھی سناتے تھے کہ میری بیٹی بھی قصور واتی ہوتی تو اسے بھی سزا دیتا۔ عمران نیازی کو سزا مل چکی ہے اس کے بعد وہ جس طرح تاویلیں پیش کر رہے ہیں یہ اس پیغام اورنظریے کی نفی ہے اور وہ قوم کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ قانون سے بڑے ہیں،ان کی کسی قسم کی جوابدہی آئین و قانون کے آگے نہیں ہو سکتی ۔
انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فیصلہ آیا اس فیصلے کے جواب میں مسلم لیگ (ن)نے سڑکوں کو بند نہیں کیا ملک کے اندر دہشتگردی نہیں کی ، نواز شریف نے فوری قانون کے سامنے عدالتی فیصلے کے سامنے سرنڈر کیا اوروزیر اعظم کا عہدہ چھوڑا اور آئین و قانون کی جنگ کا راستہ اختیار کیا ، لندن میں جب وہ اپنی بیمار اہلیہ کی عیادت کے لئے تھے تو ان کے خلاف پاکستان میں جلد بازی سے فیصلہ سنایا گیا.
انہوں نے اس وقت بھی جلائو گھیرائو کی سیاست نہیں کی بلکہ بیٹی کو لے کر واپس آئے اور خود کو قانون کے حوالے کیا اور جنگ عدالتوں کے اندر لڑی ۔ عمران خان ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ دو نہیں ایک قانون ہونا چاہیے اگر قانون نے انہیں کرپشن اورکرپٹ پریکٹسز کا قصور وار قرار دیا ہے تو اس کا فیصلہ سڑکوں پر ٹائر جلا کر یاتشدد کے ذریعے نہیں ہونا اس کا فیصلہ قانونی جنگ اور عدالتوں کے اندر ہونا ہے ۔ بجائے وہ عدالتوں کا راستہ اختیار کریں اس قسم کا تشدد پھیلا رہے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے وہ قصور وار ہیں اور وہ طاقت سے دھونس اور لاٹھی سے اپنے حق میں فیصلہ لینا چاہتے ہیں۔
اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ قانون کی حکمرانی کا درس دینے والا لیڈر اگر قانون کی حکمرانی کے جواب میں گھیرائو جلائو اور تشدد کرے گا تو ان کا چہرہ بھی صاف طور پر قوم کو نظر آرہاہے جیسے خان صاحب نے کئی ماسک لگائے ہوتے ہیں انہوںنے قانون کی حکمرانی کا بھی ماسک لگایا ہواتھا ،ان کے اندر فاشسٹ مائنڈ ہے جوکسی آئین و قانون کو تسلیم نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن میں جوفیصلہ آیا ہے وہ اتفاق رائے سے آیا ہے ،اگر اس میں تقسیم ہوتی توکہا جا سکتاتھا اس میں کسی ابہام کی گنجائش ہے ،یہاں پر تمام اراکین نے اتفاق رائے کے ساتھ عمران خان کو کرپٹ پریکٹسز کا قصور وار پایا ہے ،سب بلیک اینڈ وائٹ ہے، کوئی گرے کا شیڈ نہیں کہ کوئی ابہام ہو ۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی وزیر اعظم کوکرپٹ پریکٹس پر نا اہل کیا گیا ہے، یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی اس لئے ہوئی کہ انہوں نے ایک خط نہیں لکھا تھا جس کا حکم سپریم کورٹ نے انہیں دیا اور سپریم کورٹ کی حکم عدولی پر انہیں نا اہل قرار دیا گیا ۔ نواز شریف کے خلاف پانامہ کا مقدمہ پیش ہوا او رجے آئی ٹی بنی پلندے پیش کئے گئے لیکن کرپشن کا ثبوت سامنے نہیں آسکا انہیں نا اہل پانامہ میں نہیں بلکہ بیٹے سے دس ہزار درہم تنخواہ وصول نہ کرنے پرکر دیا گیا ۔
عمران خان کے خلاف اول نا اہلی تبھی ہو جانی چاہیے تھی جب انہوں نے سات مہینے تک سپریم کورٹ کے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے حکم پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا او رسپریم کورٹ کی حکم عدولی کی ،سپریم کورٹ کو منہ چڑھاتے رہے ،شاید وہ تمام داروں سے طاقتور تھے، نواز شریف کو سپریم کورٹ کا حکم ماننے کے جرم میں نہیں بلکہ بیٹے کی کمپنی کی تنخواہ سے خیالی وصول نہ کرنے کے جرم میں سزا ہوئی ، انہیں کسی کرپٹ پریکٹس کے جرم میں سزا نہیں ہوئی ۔
انہوں نے کہا کہ 2018ء میں عمران خان سوا سے ڈیڑھ لاکھ روپے ٹیکس دیتے تھے یکا یک انکم ٹیکس نوے لاکھ سے اوپر کیسے چلا گیا ان کی ذرائع آمدن کیا ہیں جس سے نے ٹیکس کو نوے سے پچانوے لاکھ تک پہنچا دیا لیکن ان کے مشیر یا کوئی ترجمان اس کا کوئی جواب نہیں دے پایا ۔ عمران خان کے حمایتی ترجمان کہہ رہے ہیں عمران خان ان کی ریڈ لائن ہیں ، پی ٹی آئی کے وہ لوگ جو شعور رکھتے ہیں جن میں سوچ سمجھ کی گنجائش ہے کیا آپ نے عمران خان اورپی ٹی آئی کا ساتھ انصاف کی بالا دستی کے لئے دیا تھا یا کسی ایک شخص کی شخصی حکمرانی کے لئے دیا تھا؟