لاہور(لاہورنامہ)پاکستان تحریک انصاف کے سینئر مرکزی نائب صدر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ آئین کے تحت سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے اور90روز میں ہی انتخابات ہونے ہیں.
دنیا میں جمہوریت ایسے نہیں چل سکتی کہ ایک حکومت کہے کہ ہم تب تک انتخابات نہیں کرائیں گے جب تک ہمارے حق میں انتخابات کے نتائج نہیں ہوجائیں گے.
پاکستان بار کونسل میں گماشتوں کو ہڑتال کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی ، سارے پاکستان میں وکلاء نے پاکستان بار کونسل کی ہڑتال کی کال کو مسترد کیا ہے ،مذاکرات کے لئے دعوت وزیر اعظم نے دینی ہے اور ہم اپنا وفد بنا کر بھیج دیں گے۔
ان خیالات کا اظہار انہوںنے تحریک انصاف وسطی پنجاب کے جنرل سیکرٹری حماد اظہر کے ہمراہ انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ فواد چوہدری نے کہا کہ پی ڈی ایم جماعتیں اس وقت سپریم کورٹ کے خلاف پراپیگنڈے میں مصروف ہیں.
اس میں ان جماعتوں کے ترجمان اور کچھ رپورٹرز شامل ہیں، یہ سب کچھ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے قائد نواز شریف کی ا یماء پر ہو رہاہے ۔ (ن) لیگ کی سپریم کورٹ پر حملوں کی پرانی تاریخ ہے ، جس طرح آج انہوں نے پاکستان بار کونسل میں اپنے گماشتوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی وہ بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی.
سارے پاکستان میں وکلاء نے بار کونسل کی ہڑتال کی کال کو مسترد کیا ہے ، جو بارز کے اصل لیڈرز ہیں ان کی اپیل کے اوپر ساری وکلاء برادری سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے ،ا س طرح کا اتحاد دوسری بار ہے کہ وکلاء برادری اپنی سپریم کورٹ کے پیچھے کھڑی ہے اور ہر جگہ ہڑتال ناکام ہو گئی ہے.
سارے ملک میں وکلاء عدالتوں میں پیش ہوئے ہیں جو چیف جسٹس اور جج صاحبان کے اوپر وکلاء کے اعتماد کا اظہار ہے ۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے ضروری نہیں کہ ہر دفعہ صحیح ہوں ، بے شمار دفعہ سپریم کورٹ کے فیصلے غلط بھی ہوتے ہیں، نظام یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے.
آئین کے تحت وزیر اعظم یا کوئی حکومت یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہمیں سپریم کورٹ کا فیصلہ پسند نہیں ہے اور اس پر عملدرامد نہیں کریں گے ۔ پاکستان میںعدالتی نظام کاہی مذاق بنا دیا گیا ہے،ماتحت عدالتوں میں لوگ ضمانت لیتے ہیں اورباہر نکلتے ہیں تو دوسرے کیس میں گرفتار کر لیا جاتا ہے .
ہائیکورت احکامات دیتی ہے اس پر عمل نہیں ہوتا اس لئے لوگوں کا پاکستان کے عدالتی نظام سے اعتبار ہی اٹھ رہا تھا لیکن چیف جسٹس پاکستان نے اور ان کے ساتھی ججوں نے جس دلیری اور بہادری سے انتخابات کرانے کا فیصلہ دیا اس سے پاکستان میں آئین کی حرمت بحال ہوئی ہے.
سپریم کورٹ کا کوئی جج چاہے ان کے آپس میں جو مرضی اختلافات ہوں یہ نہیں کہہ رہا کہ انتخابات 90روز سے آگے جا سکتے ہیں ۔ اس حکومت کا ایک ہی مسئلہ ہے کہ جب تک مثبت نتیجہ نہیں آئے گا ہم انتخابات نہیں کرائیں گے، دنیا میں جمہوریت ایسے نہیں چل سکتی کہ ایک حکومت کہے کہ ہم تب تک انتخابات نہیں کرائیں گے جب تک ہمارے حق میں انتخابات کے نتائج نہیں ہوجائیں گے.
یہ انتخابات سے بھاگے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جس طریقے سے لوگوں کواٹھایا جاتا ہے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے گھر پر حملہ ہوا جس کی وکلاء برادری اور پاکستان کے عوام کی طرف سے مذمت کرتا ہوں ۔
اظہر صدیق ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بنچ کے سامنے وکیل ہیں لیکن انہیں دہشتگردی سے ڈرانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن وہ نہیں ڈریں گے،قوم خوف کی چادر ااتار چکی ہے اور دلیری اور بہادری اس دوجہد میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ 14مئی کو ہر صورت میں انتخابات ہونے ہیں ،اگر سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل نہیں ہوتا تو سپریم کورٹ بطور ادارہ ختم ہو جاتا ہے، سپریم کورٹ کے خلاف پی ڈی ایم جماعتوں نے جوپراپیگنڈہ شروع کیاہے اس کو مسترد کرتے ہیں اورسارا پاکستان سپریم کورٹ کے ساتھ مل کر آئین کی جدوجہد کرے گا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ہم تو پہلے ہی مذاکرات کا کہہ چکے ہیں آئین انتخابات کے فریم ورک پر بات کریں ، ظاہر ہے کہ اس کے لئے دعوت وزیر اعظم نے دینی ہے اور ہم اپنا وفد بنا دیں گے ، وفد میں کون کون شامل ہوگا اس کا فیصلہ تحریک انصاف خود کرے گی ۔
حماد اظہر نے کہا کہ ظل شاہ کے قتل پر پولیس کی مدعیت میں دو موقف سامنے آرہے ہیں ، ایک میں وہ کہتے ہیں عمران خان ،حماد اظہر ،فواد چوہدری اور دیگر ساتھیوں نے ظل شاہ کو قتل کیا جس کی ضمانت کے لئے ہم عدالت میں آئے ہیں ، دوسری جانب پولیس کہہ رہی ہے ایک مختلف وقت میں ان کی جان چلی گئی ، جب پولیس پر دبائو آتا ہے تو اوٹ پٹانگ بیان سامنے آ جاتے ہیں۔
لیکن جو تیسرا موقف ہے جس کی ایف آئی ار کاٹی نہیں گئی اور وہ حقیقت پر مبنی ہے ، اس حوالے سے ہماری درخواست عدالت میںزیر التواء ہے ،سچ کے اس کے اندر ہے کہ پولیس کے تشدد سے ظل شاہ کو شہید کیا گیا ، یہ کریمینل جسٹس سسٹم کا مذاق اڑا ہے کہ پولیس کی مدعیت میں دو موقف سامنے آ گئے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ پولیس دبائو ڈالنے والوں کا بتاتے بھی نہیں اور سائیڈ پر بتا بھی دیتے ہیں دبائو کہاں سے آرہا ہے ، ان کے ہاتھ پائوں پھولے ہوئے ہیں کہ کیا کہیں ،ایک عدالت میں کہتے ہیں حادثے میں فوت ہوا اوردوسرے میں کہتے ہیں عمران خان اور ساتھیوں نے قتل کیا ۔
انہوں نے کہا کہ اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے گھر پر پیٹرول بم پھینک کر ہراساں کرنے اور دھمکانے کی کوشش کی گئی ، لیکن ہم دھمکیوں میں آنے والے والے نہیں ، اظہر صدیق بھی دھمکیوں میں آنے والا نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بار کونسل کے چند وکلاء کی طرف سے ہڑتال کی کال آئی جو انہوں نے بھی دبائو کے تحت دی لیکن جو عوام کی حمایت میں ساتھ کھڑا نہیں ہوتا تو ان لوگوں کو اسی طرح منہ کالا کرانا پڑتا ہے جس طرح ہڑتال کی کال دینے والوں کا ہوا ہے.
ساری عدالتیں کھلی ہیں جو وکیل کبھی کبھی رمضان میں چھٹی کر لیتے تھے وہ بھی قوم اور آئین ،قانون اور چیف جسٹس اور انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں۔